حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے نفاق کا شبہ
ایک مرتبہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ حضور اقدس ﷺ کی
خدمت میں پہنچے، اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میں تباہ و برباد ہوگیا، حضور اقدس ﷺ نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں منافق ہوگیا؟ حضور اقدس ﷺ نے پوچھا کہ کیسے منافق ہوگئے؟ جواب میں فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ! جب میں آپ کی مجلس میں بیٹھتا ہوں تو دل میں نیک جذبات اور نیک خیالات پیدا ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی یاد دل میں تازہ ہوتی ہے، اپنی اصلاح کی فکر ہوتی ہے، آخرت کی نعمتیں یاد آتی ہیں ، لیکن جب کاروبار زندگی میں جاتا ہوں ، اور بیوی بچوں کے پاس جاتا ہوں تو وہ کیفیت باقی نہیں رہتی، اللہ کی طرف دھیان، اپنی اصلاح کی فکر اور آخرت اور جنت کا خیال باقی نہیں رہتا، اور یہ تو منافقت کی بات ہے کہ ظاہر میں تو مسلمان ہیں اور دل کے اندر برے برے خیالات پیدا ہورہے ہیں ، اس لئے یا رسول اللہ ﷺ! میں تو منافق ہوگیا، اب آپ مجھے بتائیے کہ کس طرح اس منافقت سے نکلوں ؟
دیکھئے! حضور اقدس ﷺ کے صحابی یہ بات کہہ رہے ہیں ، اور صحابہ کے بارے میں پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اَلصَّحَابَۃُ کُلُّہُمْ عَدُوْلٌ: تمام صحابہ عادل ہیں ، ان میں کوئی فاسق نہیں ہوسکتا، ان کو یہ شبہ پیدا ہورہا ہے کہ کہیں میں منافق تو نہیں ہوگیا؟ سرکار دوعالم ﷺ نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ گھر میں جاکر تمہیں جو خیالات بدلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کیفیت بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے، اس سے پریشان نہ ہو، اس لئے کہ اس سے آدمی منافق نہیں ہوتا، یہ تو وقت وقت کی بات ہے، کسی وقت انسان کے دل پر اللہ کی یاد زیادہ ہوجاتی ہے، اور اس کی وجہ سے رقت زیادہ ہوجاتی ہے، اور کسی وقت میں اتنی زیادہ نہیں ہوتی، لہٰذا ان کیفیات کے بدلنے سے آدمی منا فق نہیں ہوتا۔ (صحیح مسلم، کتاب التوبہ، باب فضل دوام الذکر)

No comments:
Post a Comment