انسان چاند پر پہنچ سکتا ہے۔ شرعی نقطۂ نظر کیا ہے؟
سوال کیا امریکہ کے خلا باز چاند پر پہنچے اور وہاں سے ریت او رپتھر لائے ہیں ۔ تو دریافت طلب بات یہ ہے کہ شرعی نقطہ ٔ نظر سے یہ ممکن ہے ؟اور کیوں کر ؟ بتفصیل جواب مرحمت فرمائیں ۔بنوا توجروا۔
جواب:چاند پر انسان پہنچ سکتا ہے۔ اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں ۔ لہذا امریکہ کے خلا باز اگر یہ دعویٰ کرتے ہیں تو اس کے ماننے میں شرعی لحاظ سے کوئی حرج نہیں ہے، چاند بھی خدا کی مخلوق ہے ۔ چاند پر پہنچنے کی سمجھ بھی ان کو خدا پاک ہی نے دی ہے یہ بھی ایک کرشمہ ٔ خدا وندی ہے خدا پاک نے شیطان مردود کو اس سے بھی زیادہ طاقت دی ہے ۔ پل بھر میں کہاں سے کہاں پہنچتا ہے ۔ خدا ہی نے اس کو آسمان تک پہنچنے کی طاقت دی ہے ۔ اسی طرح خدا پاک ’’ دجال‘‘ کو بھی حیرت انگیز طاقت دیں گے ۔ جو ایک بڑے بزرگ کے ٹکڑے کر کے اس کو زندہ کرے گا ۔ اور صدیوں کے مردہ کو زندہ کرے گا ، جو اس سے باتیں کرے گا۔ بارش برسائے گا، کھیتی پکائے گا ۔ چند لمحات
میں دنیا کا سفر کرے گا۔ اور اس کے ساتھ اس کی خود ساختہ جنت جہنم ہوگی ۔ اپنے ماننے والوں کو جنت میں اور نہ ماننے والوں کو جہنم میں داخل کرے گا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ہوائی سفر کیا کرتے تھے ۔ ہد ہد پرندہ نہایت دور سے خفیہ راز لاتا تھا ۔ قوم سباء اس کی ملکہ ’’ بلقیس‘‘ اور اس کے غیر معمولی اور نہایت عظیم الشان تخت شاہی کی خبر حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہد ہد ہی نے دی تھی ۔ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک وزیر نے جس کو کتاب الٰہی کا علم تھا (اسم اعظم جانتا تھا) یہ کرامت دکھادی تھی کہ پلک جھپکنے سے پہلے بلقیس کا شاہی تخت لا کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے حاضر کر دیا تھا ۔ ملاحظہ فرمایئے ۔سورئہ نمل پ ۱۹۔قران حکیم ۔
اگر امریکہ کے خلا باز چاند پر جا کر ریت اور پتھر لائے تو اس میں تعجب کیا ہے کہ ایسے کام جانور (ہد ہدوغیرہ) بھی کر چکے ہیں ۔ خد اکی طرف سے جس کو جیسی توفیق ملتی ہے ویسا ہی کام کرتا ہے ۔ قران کریم میں ہے ۔ من کان یرید حرث الا خرۃ نزدلہ فی حرثہ ومن کا ن یرید حرث الدنیا نؤتہ منھا وما لہ فی الاٰخرۃ من نصیب۔ یعنی:۔ جو کہ (ایماندار)آخرت کی کھیتی۔(ثواب) کا خواہش مند ہو تو ہم اس کو اس کی کھیتی میں (اخرو ی نعمتوں میں ) ترقی دیں گے ۔ اور جو کوئی (دنیا کا بندہ) دنیا کی کھیتی (ترقی عیش و آرام) کا خواہش مقد ہو تو ہم اس کو اس میں سے کچھ دے دیں گے او رآخرت (کی نعمتوں ) میں اس کا کوئی حصہ نہ رہے گا۔(سورئہ شوریٰ)
(فتاوی رحیمیہ)
حضرت سلیمان علیہ السلام ہوائی سفر کیا کرتے تھے ۔ ہد ہد پرندہ نہایت دور سے خفیہ راز لاتا تھا ۔ قوم سباء اس کی ملکہ ’’ بلقیس‘‘ اور اس کے غیر معمولی اور نہایت عظیم الشان تخت شاہی کی خبر حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہد ہد ہی نے دی تھی ۔ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک وزیر نے جس کو کتاب الٰہی کا علم تھا (اسم اعظم جانتا تھا) یہ کرامت دکھادی تھی کہ پلک جھپکنے سے پہلے بلقیس کا شاہی تخت لا کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے حاضر کر دیا تھا ۔ ملاحظہ فرمایئے ۔سورئہ نمل پ ۱۹۔قران حکیم ۔
اگر امریکہ کے خلا باز چاند پر جا کر ریت اور پتھر لائے تو اس میں تعجب کیا ہے کہ ایسے کام جانور (ہد ہدوغیرہ) بھی کر چکے ہیں ۔ خد اکی طرف سے جس کو جیسی توفیق ملتی ہے ویسا ہی کام کرتا ہے ۔ قران کریم میں ہے ۔ من کان یرید حرث الا خرۃ نزدلہ فی حرثہ ومن کا ن یرید حرث الدنیا نؤتہ منھا وما لہ فی الاٰخرۃ من نصیب۔ یعنی:۔ جو کہ (ایماندار)آخرت کی کھیتی۔(ثواب) کا خواہش مند ہو تو ہم اس کو اس کی کھیتی میں (اخرو ی نعمتوں میں ) ترقی دیں گے ۔ اور جو کوئی (دنیا کا بندہ) دنیا کی کھیتی (ترقی عیش و آرام) کا خواہش مقد ہو تو ہم اس کو اس میں سے کچھ دے دیں گے او رآخرت (کی نعمتوں ) میں اس کا کوئی حصہ نہ رہے گا۔(سورئہ شوریٰ)
(فتاوی رحیمیہ)
No comments:
Post a Comment