ماہ رمضان کی فضیلت - Asan DarseQuran Academy

Online Quran academy. Online Quran classes asandarsequran,drse quran,islami mazameen,fiqhi masail,islami books۔

LATEST

asd

Post Top Ad

Saturday, May 5, 2018

ماہ رمضان کی فضیلت



ماہ رمضان کی فضیلت

رمضان المبارک کا مہینہ بڑا ہی رحمتوں اور فضیلتوں والا مہینہ ہے ،اس مہینہ کی جو فضیلتیں اور برکتیں ہیں سال کے کسی بھی مہینہ میں موجود نہیں اسی لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و حدیث میں اس مہینہ کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ،قرآن کریم میں ماہِ رمضانکے سوا کسی اور مہینہ کی فضیلت بیان نہیں کی گئی ،اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ سے ہی اس کی تیاری کیا کرتے تھے اور صحابہ کرام کو اس کی فضیلت و اہمیت سے آگاہ کرتے تھے۔

حضرت سلمان  کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے اوپر مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے ،بہت مبارک مہینہ ہے،اس میں ایک رات ہے(شبِ قدر )جو ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس کے روزں کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام کو ثواب کی چیز بنایا ہے ،جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرے ایسا ہے ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض ادا کیا اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا غیر رمضان میں ستر فرض ادا کرے ،یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے ،اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے ،جو شخص کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرائے یہ اس کے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا اور روزہ دار کے ثواب کی مانند اس کو ثواب ہوگا،مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ہم میں سے ہر شخص وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ثواب اللہ تعالیٰ ایک کھجور سے افطار کروانے یا ایک گھونٹ پانی پلانے یا ایک گھونٹ ذائقہ دار دودھ پلانے پر بھی عطا فرما دیتے ہیں ،یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آگ سے آزادی کا ہے،جو شخص اس مہینہ میں اپنے ماتحتوں کے بوجھ کو ہلکا کر دے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں اور آگ سے آزادی فرماتے ہیں، اور چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو جن میں دو چیزیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو ،جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ میرے حوض کوثر سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی (شعب الایمان 223/5حدیث نمبر3336)

درج ذیل حدیث سے جہاں ماہِ صیام کی فضیلت و اہمیت کا پتہ چلتا ہے وہیں اس کی خصوصیات کا بھی اندازہ ہوتا ہے ،یہ حدیث اور اس کے علاوہ دیگر احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کی فضیلت اور بہت سے خصوصیات بیان کی ہیں جو دوسرے مہینوں میں نہیں پائی جاتی ہیں۔

رمضان کے مہینہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے روزوں کو فرض کیا ،قرآن کریم میں روزوں کے متعلق تاکید ی حکم دیا گیا کہ جو کوئی اس (رمضان)کے مہینے کو پائے اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے،اور جو تم میں مریض ہو،یا مسافر ہو تو وہ دوسرے مہینوں میں اس کی قضاء کر ے ، ( ا لبقرة: 185 ) اگر انسان کو روزے کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے تو وہ پوری زندگی روزے رکھنے کی تمنا کرے ،اس لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بلا کسی عذر کے قصداً ایک دن کا بھی روزہ چھوڑے،غیر رمضان میں چاہے تمام عمر روزے رکھے اس کا بدلہ نہیں ہو سکتا(بخاری:باب اذا جامع فی رمضان)اس حدیث کی بناء پر بعض صحابہ کرام اور علماء کرام کہتے ہیں روزے کی قضاء ہو ہی نہیں سکتی چاہے تمام عمر روزہ رکھتا رہے،لیکن جمہور فقہاء وجوبِ قضا کے قائل نہیں،البتہ وہ برکت اور فضیلت جو رمضان المبارک کی ہے ہاتھ نہیں آئے گی،اور روزوں کی فرضیت کا مقصد تقویٰ اور پرہیز گاری پیدا ہونا ہے،یہ روزے کا لازمی اثر ہے،کیونکہ جب انسان کا پیٹ غذا سے بھرا ہوا رہے گا تو اس وقت نفسانی خواہشات بہت زیادہ غالب ہوں گی،نفس طرح طرح کی خواہشات میں مبتلاء کردے گا اس کے برعکس انسانی پیٹ جتنا خالی ہو گا نفس اتنا ہی پاک وصاف ہوگا اور نفسانی خواہشات کا غلبہ نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی صفتِ صمدیت کی تجلی بندے پر جلوہ افروز ہو گی۔

اس مہینہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ثواب کا فیصد بڑھا دیا جاتا ہے اگر کوئی نیکی کرے تواس کو ایک فرض کے برابر ثواب دیا جاتا ہے اور اگر کوئی ایک فرض ادا کرے تو اس کو70گنا اضافہ کے ساتھ دیا جاتا ہے،یہ انعام ہے اس سخی ذات کی طرف سے جس کی سخاوت بندوں پر عام وتام ہے،اور اس کی سخاوت کے دریا سے کوئی پیاسا نہیں لوٹا،اور ثواب کا یہ معیار صرف اس امت محمدیہ کے لیے خاص ہے،کیونکہ اس امت سے حق تعالیٰ شانہ نے عام حالات میں نیکی کے بدلہ دس گنا ثواب عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے کہ :”من جاء بالحسنة فلہ عشرامثالہا“ (الانعام:160) جو کوئی ایک نیکی لے کر آئے گا تو اس کا 10گنا اضافہ دیا جائے گا،جب عام حالات میں اس قدر عطا کیا جائے گا تو رمضان میں بدرجہ اولیٰ ثواب کی یہ مقدار10سے 70تک بڑھا دی جاتی ہے،اس جگہ ہمارے لیے لمحہ فکر ہے کہ ہم اپنی عبادتوں کے بارے میں غور کریں مجموعی اعتبار سے ہمارے فرائض ونوافل میں کس قدر اضافہ ہوا ہے اور دیگر سنتوں کا ہم کہاں تک اہتمام کررہے ہیں۔

اس مہینہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کا مہینہ قرار دیاہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ:ولبنلونکم بشیءٍ من الخوف والجوع۔ہم تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک کے ذریعہ آزمائیں گے۔اور آخر آیت میں وبشر الصابرین ہے،یعنی صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو(البقرة:155)یہ خوشخبری جنت کی ہے جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے،اس لیے بندہ روزہ رکھ کر بھوک اور پیاس کی سختی برداشت کر کے اور اپنی نفسانی خواہشوں کو دبا کر محض رضائے الہٰی کے لیے صبرکرتاہے،اگر ہم پورے دن کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کس طرح بندہ اپنے اللہ کی خاطر تکالیف برداشت کرتا ہے ایک اس کی نیند میں کمی ہو جاتی ہے رات میں صبح سویرے فجر سے پہلے بیدار ہونا اور رات دیر گئے سونا خود ایک مشقت بھرا کام ہے اور پھر کھانوں کے اوقات تبدیل ہو جاتے ہیں،صبح کا وہ وقت جس میں میٹھی نیند سونا زیادہ پسندیدہ ہوتا ہے اس وقت سحری کھانے کا حکم اور عین مصروفیت کے وقت افطار کا حکم اور پورا دن باوجودتنہا ہونے اور تمام لذیذ کھانوں کے سامنے موجود ہونے کے بھوکے رہنے کا حکم،پھر عبادت میں اضافہ،قرآن کریم کی تلاوت،ذکرو اذکار،تسبیحات و نوافل،تراویح وتہجد کا حکم،اور اعضائے بدن پر پابندی کہ دن میں حالتِ روزہ میں خواہشات پوری نہیں کر سکتے ،زبان ،ہاتھ ،پیر وغیرہ کنٹرول میں رکھنے کا حکم،اور شبِ قدر کی تلاش میں طاق راتوں کو جاگنے کا حکم ،اور عشرہ آخرمیں گھر بار بیوی بچے چھوڑ کر اعتکاف کا حکم یہ تمام احکام محض اپنے مولی کو راضی کرنے کے لیے اور اپنی عاقبت بناینے کے لیے برداشت کئے جاتے ہے، خصوصاً بھوک اللہ سے محبت رکھنے والوں کی خصوصیات میں سے ہیں،اور یہ مجاہدے کے ارکان میں سے ہے ارباب سلوک نے بھوک کی عادت ڈالی ہے، حضرت سہل بن عبد اللہ  فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا تو پیٹ بھر کر کھانے میں معصیت اور جہالت کو اور بھوک میں علم و حکمت کو رکھ دیا (ترجمہ سالہٴ قشیریہ)

یہ مہینہ غمخواری و ہمدردی اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا مہینہ ہے،اس لیے کہ ہر آدمی یہ کوشش کرتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کرے اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو کر اس کی کچھ دلجوئی کرے ،رمضان المبارک کی یہ خصوصیت ہے کہ لوگ اس مہینہ میں جہاں اپنے بارے میں اچھائی کی فکر کرتے ہیں وہیں اپنے اہل خاندان اور اپنے ماتحتوں،غریبوں ،محتاجوں ،مسکینوں کے بارے میں بھی اچھی سوچ رکھتے ہیں ،اور اپنے مال میں سے کچھ حصہ ان کے لیے نکالتے ہیں ،اور ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ روزہ داروں کے لیے افطار کا انتظام کرے یا انہیں اپنے افطار میں شریک کرے، اسی طرح خدائی حکم کے پیش نظر صدقہ فطر اور زکوة اور عیدکے موقع پر کپڑے غریبوں اور مسیکنوں اور بے سہارا لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں ،اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین خیر خواہی اور ہمدردی کا نام ہے(بخاری باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الدین النصیحة حدیث نمبر 57)اور فرمایا کہ بہترین اسلام بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے (بخاری باب اطعام الطعام من الاسلام حدیث نمبر12)نیز فرمایا کہ جو کوئی کسی برہنہ کو کپڑے پہنائے کل قیامت میں اللہ تعالیٰ اسے جنت کا لباس پہنائیں گے (جزء من حدیث ابن شاہین روایة حدیث :33)

اس ماہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں کثرت سے لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں ،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مہینہ مغفرت کا ہے اس مہینے میں رحمت خداوندی کے سبب مغفرت کا ایک دریا بہایا جاتا ہے جس سے شاید ہی کوئی محروم رہ جائے ،اور جس کی اس مہینہ میں مغفرت نہ ہو وہ بڑا ہی محروم ہے جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے ،حضرت کعب بن عجرة  کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر تشریف لے جاتے ہوئے تین مرتبہ آمین کہا ،صحابہ کے دریافت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی حضرت جبرئیل  آئے اور تین بدد عائیں دی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص جو رمضان المبارک کے مہینے کو پائے پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی ہو اس پر میں نے آمین کہا (المستدرک للحاکم باب کتاب البر والصلة حدیث نمبر 2756)رمضانالمبارک جیسا بابرکت مہینہ بھی غفلت اور معاصی میں گزر جائے اور مغفرت نہ ہوئی تو بڑی محرومی کی بات ہے ،اس لیے انسان کو اس مہینے میں ان ہی اعمال کی طرف توجہ دینی چاہیے جس سے مغفرت ہوتی ہے ،ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے ،صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم!کیا یہ مغفرت کی رات شبِ قدر ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم کرنے کے وقت مزودی دی جاتی ہے (مسند احمد مسند ابی ہریرة حدیث نمبر:1917) امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب مختصر منہاج السنة میں مغفرت کے پانچ اسباب بیان کئے ہیں ،ایک توبہ ،دوسرے نیک اعمال ،تیسرے مصائب ،چوتھے مومن کی دعا مومن کے حق میں ،پانچویں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت (مختصر منہاج السنة:255/1 مکتبہ دارالصدیق للنشر و التوزیع صنعائی)اور بعض علماء نے ان کے علاوہ اور پانچ اسباب بھی بیان کئے ہیں جیسے استغفار کرنا،مرحومین کے لیے نیک اعمال کرنا جس سے ان کی مغفرت ہوتی ہے ،قبر کی سختی،قیامت کی ہولناکیوں ،رحمت الہی(بہ حوالہ گناہ سے کیسے بچیں افادات پیر ذوالفقار) مغفرت ہر انسان کی خواہش ہے جسے اس مہینہ میں کثرت عبادت و نوافل ،قرآن کریم کی تلاوت،ذکر و اذکار اور تسبیحات ،دعا ودرخواست ،آہ ذاری ،عجز و نیاز اور توبہ استغفار کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں ۔

اس با بر کت مہینے کی سب سے بڑی اور اہم خصو صیت قرآن کریم کا نزول ہے ،جواس ماہ کی سب سے بابرکت اور تمام راتوں میں سب سے افضل رات شب قدر میں ہوا ،اس مہینے کی خصوصیت کے لیے یہ ایک ہی بات کافی ہے ،کیوں کہ قرآن مجید تمام کتابوں میں سب سے افضل کتاب ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا ایسا حل موجود ہے جو اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں نہیں ہے ،قرآن کریم کے بارے میں اگر غور وفکر سے کام لیا جائے تو انسانی عقل حیران رہ جائے گی کہ یہ لازوال کتاب اپنے اندر بے شمار برکات اور بے انتہا رحمتوں کو لیے ہوئے ہے ،اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ اس ذات کی جانب سے نازل کی گئی ہے جو برکت والا اور جامع الکمالات ہے ،اور جس ذاتِ معصوم کی طرف نازل ہوا وہ بھی برکتوں اور رحمتوں والی ذات ہے،اور جو صاحب لانے والے ہیں وہ بھی با برکت ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام فرشتوں میں سب سے افضل وارفع ہیں، اور جس مہینے میں نازل ہوا وہ بھی برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے ،پھر جو اس کو پڑھے گا اسے اس کتاب کی تمام برکتیں حاصل ہوں گی،اس کے علاوہ بے شمار خصوصیات حضرات علماء کرام بیان کرتے ہیں ،نیز ماہ رمضان نہ صرف نزول قرآن کا مہینہ ہے بلکہ تمام آسمانی کتابوں کو اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے میں نازل کیا جیسا کہ منقول ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے اس مہینے کی ایک یا تین تاریخ کو عطا ہوئے ،اور حضرت داؤد کو زبور 18یا12 رمضان کو ملی،اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات 6 رمضان کو عطا ہوئی،اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل 12یا 13 رمضان کو ملی(فضائل رمضان :8)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کے کلام اور کتابوں کا مہینہ ہے ،اسی لیے تلاوت کی کثرت اس مہینے میں اور مہینوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے،اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان المبارک میں ایک قرآن ختم کرنے کا تھا،احادیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان حضرت جبرئیل کو پورا قرآن سنایا کرتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال شریف ہوا اس سال دو مرتبہ قرآن سنایا ،نزول قرآن کی یہ خصوصیت صرف رمضان کے ساتھ خاص ہے ۔

ماہ رمضان کی ایک اور اہم خصوصیت شبِ قدر ہے ،قرآن مجید نے اس رات کو ہزار مہینوں سے افضل بتلایا ہے ،شبِ قدر اللہ تعالیٰ کی جانب سے امت محمدیہ کو ایک بہترین انعام ہے کہ اس میں عبادت و ریاضیت کر کے ایک ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب حاصل کر سکتے ہیں ،اس رات کی اہمیت و فضیلت کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پوری ایک سورت نازل فرمائی ہے،اور اس کی خصوصیت کے بارے میں حضرت انس  حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر صرف میری امت کو عطا کی گئی ہے اس سے پہلے کسی امت کو عطا نہیں کی گئی ہے (الدرالمنثور باب القدر:ص570مکتبہ دارالفکر بیروت)پھر اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب اسی رات میں نازل ہوئی ،اور ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس رات فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ اترتے ہیں اور جس شخص کو عبادت میں مشغول پاتے ہیں اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں ،نیز علما کرام کے بعض اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی رات میں ملائکہ کی پیدائش ہوئی ،اور اسی رات حضرت آدم کا مادہ جمع ہونا شروع ہوا ،اور اسی رات جنت میں درخت لگائے گئے ،اسی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے ،اور اسی رات بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی،اور یہی وہ رات ہے جس میں دعائیں بہت زیادہ قبول ہوتی ہیں ،شب قدر کی اسی اہمیت کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اس کی تعیین نہیں کی بلکہ انسانوں کے شوق،جذبے اور جستجو پر چھوڑ دیا ہے ،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو شخص شبِ قدر میں ایمان اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا ہواس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں (بخاری ،باب من صام ایمانا،حدیث نمبر:1901)

منجملہ خصوصیات کے ایک خصوصیت تراویح بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف رمضان کے مہینے میں اس امت کے لیے خاص کی ہے ،یوں تو رمضان میں دوسری عبادتوں کی کثرت ہے لیکن تراویح کی ایک الگ خصوصیت ہے اس لیے کہ یہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماہ رمضان کی راتوں میں قیام (بیس رکعات تراویح)کوثواب کی چیز بنایا ہے (شعب الایمان 223/5حدیث نمبر3336)اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا ہے اور امت کو بھی عمل کرنے کی تاکید کی ہے ،اور صحابہ کرام بالاتفاق اس پر مواظبت فرماتے ہیں ،تراویح کی اسی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ کسی شہر کے لوگ اگر تراویح چھوڑ دیں تو اس کے چھوڑنے پر امام ان سے مقابلہ کرے ،سلفِ صالحین کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ پورا رمضان تراویح کا خاص اہتمام کرتے تھے اور پورے مہینے میں کئی قرآن تروایح میں پڑھا اور سنا کرتے تھے ۔

ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے مہینے کا اعتکاف کیا ہے ،حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی پھر ترکی خیمہ سے جس میں اعتکاف فرما رہے تھے باہر سر نکال کر ارشاد فرمایا میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا ،پھر اسی کی وجہ سے دوسرے عشرہ میں کیا،پھر مجھے کسی بتلانے والے (یعنی فرشتہ)نے بتلایا کہ وہ رات اخیر عشرہ میں ہے لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ اخری عشرہ کا بھی اعتکاف کریں مجھے یہ رات دکھلادی گئی تھی پھر بھلا دی گئی (اس کی علامت یہ ہے )کہ میں نے اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح گیلی مٹی میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ،لہٰذا اب اس کو اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ،راوی کہتے ہیں کہ اس رات میں بارش ہوئی اور مسجد چھپرے کی تھی وہ ٹپکی اورمیں نے اپنی آنکھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر گیلی مٹی کا اثر 21 کی صبح دیکھا (صحیح مسلم ،باب استحباب صوم ستتہ ایام حدیث نمبر :215)

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اعتکاف ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ کی عادت شریفہ رہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں ہمیشہ اخیرہ عشرہ کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن کبھی کبھی پورا مہینہ اعتکاف بھی فرمایا کرتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا ہے اس سال 20 دن اعتکاف فرمایا تھا لیکن عادتِ شریفہ چوں کہ اخیر عشرہ کے اعتکاف کی رہی ہے ،اس لیے علماء کے نزدیک سنتِ موکدہ ہے ۔

یہ چند خصوصیات جو رمضان المبارک کے مہینے کو دوسرے تمام مہینوں سے ممتاز کرتی ہیں اور ان ہی خصوصیات کی بناء پر ماہ رمضان کو اللہ تعالیٰ نے برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ قرار دیا ہے ،اس کے علاوہ چند اور خصوصیات بھی ہیں جسے علماء نے احادیث کی روشنی میں بیان کیا ہے :جیسے رزق میں برکت ،دوزخ کی آگ سے خلاصی ،رحمتوں کا نزول ،جنت کوآراستہ کرنا،شیاطین کو قید کرنا ،منہ کی بدبو،مچھلیوں کا دعا کرنا وغیرہ یہ سب خصوصیات ایسی ہیں جو صرف رمضان المبارک کے حصہ میں آئی ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages