حضرت زِیاد بن حارث ؓ کے بارے میں حضور ﷺ کے دو خط اور نصیحت
حضرت زِیاد بن حارث صُدائیؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اور اِسلام پر آپ سے بیعت ہوا۔ مجھے پتہ چلا کہ حضور ﷺ نے ایک لشکر میری قوم کی طرف بھیجا ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ لشکر واپس بلالیں، میں اس بات کی ذمہ داری لیتا ہوں کہ میری قوم مسلمان بھی ہوجائے گی اور آپ کی اِطاعت بھی کرے گی۔ آپ نے فرمایا: تم جاؤ اور اس لشکر کو واپس بلا لاؤ۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میری سواری تھکی ہوئی ہے۔ حضور ﷺ نے ایک آدمی کو بھیج کر لشکر واپس بلوالیا۔ میں نے اپنی قوم کو خط لکھا، وہ مسلمان ہوگئے اور ان کا وفد یہ خبر لے کر حضورﷺ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: اے صُدائی بھائی! واقعی تمہاری قوم تمہاری بات مانتی ہے۔ میں نے کہا: (اس میں میرا کمال نہیں ہے) بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اِسلام کی ہدایت دی ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اُن کا امیر نہ بنا دوں؟ میں نے کہا: بنادیں یا رسول اللہ! چناںچہ حضور ﷺ نے میری اِمارت کے بارے میں مجھے ایک خط لکھ کر دیا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! ان کے صدقات میں سے میرے لیے کچھ حصہ مقرر کردیں۔ آپ نے فرمایا: اچھا! اور اس بارے میں مجھے ایک اور خط لکھ کر دیا۔ یہ سارا واقعہ ایک سفر میں پیش آیا تھا۔
پھر حضور ﷺ نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا۔ اس جگہ والوں نے آکر اپنے عاملِ صدقات کے متعلق آپ سے شکایت کی، اور کہا کہ ہمارے اور اس کی قوم کے درمیان زمانہ ٔجاہلیت میں کچھ (جھگڑا ) تھا جس کی وجہ سے اس نے ہمارے ساتھ سختی کی ہے۔ آپ نے فرمایا: اچھا! اس نے ایسا کیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے اپنے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اور میں بھی ان میں تھاکہ مؤمن آدمی کے لیے امیر بننے میں کوئی خیر نہیں ۔ حضور ﷺ کی یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی۔ پھر آپ کے پاس ایک اور آدمی نے آکر کہا: مجھے کچھ دے دیں۔ آپ نے فرمایا: جو آدمی غنی ہوکر پھر لوگوں سے مانگتا ہے تو یہ مانگنا اس کے سر کا درد اور پیٹ کی بیماری بن کر رہے گا۔ اس آدمی نے کہا: مجھے صدقات میں سے دے دیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صدقات کی تقسیم کے بارے میں نبی اور اس کے علاوہ کسی اور سے فیصلہ نہیں کروایا،بلکہ اس بارے میں خود فیصلہ کیاہے اور آٹھ قسم کے انسانوں میں صدقات کا مال تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر تم ان آٹھ قسم کے انسانوں میںسے ہوئے تو میں تمہیں دے دوں گا۔ تو میرے دل میںیہ بات بھی بیٹھ گئی اور مجھے خیال آیا کہ میں غنی ہوں اور میں نے حضورﷺ سے صدقات میں سے مانگا ہے۔آگے لمبی حدیث ہے جس میں یہ بھی ہے کہ جب حضور ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میںآپ کے دونوں خط لے کر آپ کی خد مت میں آیا اور میں نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے ان دونوں باتوں سے معافی دے دیں۔ آپ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا ؟میں نے کہا: یا رسول اللہ ! میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مؤ من آدمی کے لیے امیر بننے میں کوئی خیر نہیں ہے اور میں اللہ ورسول پر ایمان رکھتا ہوں ۔اور میں نے آپ کو سائل سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی غنی ہو کر پھر لو گوں سے مانگتا ہے تو یہ مانگنا اس کے سر کادرد اور پیٹ کی بیماری بن کررہے گا، اور میں غنی تھا پھر بھی میں نے آپ سے سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: بات تو وہی ہے، اگر تم چاہو تو یہ خط رکھ لو اور چاہو تو واپس کردو۔ میں نے کہا: میں تو واپس کرتا ہوں ۔آپ نے مجھ سے فرمایا: مجھے کوئی ایسا آدمی بتائوجسے
تم سب کا امیر بنا دوں۔ آنے والے وفد میں سے میں نے ایک کا نام بتایا، حضور ﷺ نے اسے ان کا امیر بنا دیں
No comments:
Post a Comment