حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی گفتگو - Asan DarseQuran Academy

Online Quran academy. Online Quran classes asandarsequran,drse quran,islami mazameen,fiqhi masail,islami books۔

LATEST

asd

Post Top Ad

Thursday, May 3, 2018

حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی گفتگو


حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی گفتگو
’’بخاری‘‘ میں حضرت عائشہؓ کی یہ روایت ہے کہ حضورﷺ کی گفتگو ایسی واضح اور اطمینان سے ہوتی تھی کہ اگر کوئی اس کے کلمات گننا چاہتا تو گن سکتا تھا۔
’’بخاری‘‘ میں حضرت عائشہؓ کی دوسری روایت میں یہ ہے کہ میں تمھیں تعجب کی بات نہ بتاؤں کہ ابو فلاں آئے اور میرے حجرے کے قریب بیٹھ کر حضورِ اقدسﷺ کی حدیثیں اتنی آواز سے بیان کرنے لگے کہ مجھے بھی سنائی دے رہی تھیں۔ میں نفل نماز پڑھ رہی تھی اور وہ میری نماز ختم ہونے سے پہلے ہی وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے۔ اگر مجھے وہ مل جاتے تو میں ان کی تردید کرتی اور انھیں بتاتی کہ حضورﷺ تمہاری طرح لگاتار جلدی جلدی گفتگو نہیں فرمایا کرتے تھے۔ یہ روایت امام احمد، مسلم اور ابو داؤد ؒ نے بھی ذکر کی ہے۔ اور اس کے شروع میں یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: کیا میں تمھیں حضرت ابو ہریرہؓ کی عجیب بات نہ بتاؤں؟ پھر آگے پچھلی حدیث جیسا مضمون ذکر کیا ہے۔
امام احمد اور ابو داؤد حضرت عائشہؓ کی یہ روایت ذکر کرتے ہیں کہ حضورﷺ کی گفتگو کا ہر مضمون دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا اور ہر ایک آپ کی بات سمجھ جاتا تھا۔ آپ لگاتار جلدی جلدی بات نہیں فرماتے تھے۔
حضرت جابرؓ یا حضرت ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کی گفتگو واضح حروف کے ساتھ ہوتی تھی یا ہر ہر لفظ جدا ہوتا تھا اور اس میں عجلت نہیں پائی جاتی تھی۔
امام احمد اور بخاری حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ جب کوئی اہم بات فرماتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے۔ اور جب کسی قوم کے پاس جا کر سلام کرتے تو تین مرتبہ کرتے۔
امام احمد حضرت ثمامہ بن انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس ؓ جب کوئی بات کرتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے۔ اور وہ یہ بتایا کرتے کہ نبی کریم ﷺ بھی جب کوئی (اہم) بات فرماتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے اور اجازت بھی تین مرتبہ لیتے۔
’’ترمذی‘‘ میں حضرت ثمامہ بن انس ؓ فرماتے ہیں: جب حضورﷺ کوئی (اہم) بات فرماتے تو اسے تین دفعہ دہراتے تاکہ اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔
امام احمد اور بخاری حضرت ابو ہریرہؓ سے یہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے جامع کلمات دے کر بھیجا گیا ہے (جن کے الفاظ تھوڑے اور معانی زیادہ ہیں) اور رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے۔ ایک مرتبہ میں سو رہا تھا تو زمین کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئیں اور میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ فرماتے ہیں کہ جب حضورﷺ بیٹھے ہوئے گفتگو فرما رہے ہوتے تو (اللہ تعالیٰ کی محبت اور وحی کے انتظار میں) بار بار نگاہ آسمان کی طرف اُٹھاتے۔
حضرت عمرو بن عاص ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ قوم کے بدترین شخص کی طرف بھی تالیفِ قلب کے خیال سے پوری طرح متوجہ ہو کر بات فرماتے (جس کی وجہ سے اس کو اپنی خصوصیت کا خیال ہو جاتا تھا)۔ چناںچہ خود میری طرف بھی حضورﷺ کی توجہاتِ عالیہ اور کلام کا رخ بہت زیادہ رہتا تھا حتیٰ کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ میں قوم کا بہترین شخص ہوں، اسی وجہ سے حضورﷺ سب سے زیادہ توجہ فرماتے ہیں۔ میں نے اسی خیال سے ایک دن دریافت کیا کہ یارسول اللہ! میں افضل ہوں یا ابو بکرؓ؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ابوبکر۔ پھر میں نے پوچھا کہ میںافضل ہوں یا عمرؓ؟ حضورﷺ نے فرمایا: عمر۔ پھر میں نے پوچھا کہ میںافضل ہوں یا عثمانؓ؟ حضورﷺ نے فرمایا: عثمان۔ جب میں نے حضورﷺ سے صاف صاف پوچھا تو حضورﷺ نے بلا رعایت صحیح صحیح بتا دیا (میری رعایت میں مجھے افضل نہیں فرمایا۔ مجھے اپنی اس حرکت پر بعد میں ندامت ہوئی) اور بڑی تمنا ہوئی کہ کاش! میں حضور ﷺ سے یہ بات نہ پوچھتا

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages